Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

پیارے بچو! آؤ دیکھیں گائے کی سچی سہیلی کون؟

ماہنامہ عبقری - فروری 2014ء

مجھے شیرنی کا کوئی ڈر نہیں‘ میرے پاس ٹھہرو‘ کھاؤ پیو‘ میں آپ کی حفاظت کروں گا۔ گائے کو کچھ اطمینان ہوا اور تھوڑا بہت کھاپی کر اپنے بچھڑے کو لے کر سوگئی۔ اسے سوئے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ زرافے نے گائے کو جگا کر کہا: ’’شیرنی آپہنچی ہے آپ جائیں‘‘

پرانے زمانے کی بات ہے کہ گائے جنگل میں دوسرے جانوروں کے ساتھ رہتی تھی وہ شیرنی کی بڑی اچھی سہیلی تھی۔ گائے کا ایک بچھڑا تھا اور شیرنی کا بھی ایک بچہ تھا چونکہ گائے اور شیرنی میں دوستی تھی‘ اس لیے دونوں کے بچے بھی ایک دوسرے کےد وست ہوگئے‘ سارا دن ساتھ کھیلا کرتے۔
گائے کا بچھڑا بہت اچھا تھا اور ہمیشہ اپنی ماں کاحکم مانتا اور صاف ستھرا رہتا لیکن شیرنی کا بچہ اس کے برعکس تھا وہ کبھی اپنی ماں کی بات نہیں سنتا تھا‘ ہروقت شرارت کرتا اور گندا رہتا۔ وہ بڑا ہی بے پرواہ تھا۔ ایک دن شیرنی کو ایک سفر پر جانا پڑا اس کا بچہ تیز نہیں چل سکتا تھا‘ اس لیے اس نے گائے کی حفاظت میں چھوڑ دیا۔ گائے نے دونوں بچوں سے کہا: ’’چپ چاپ کھیلتے رہو‘ شور نہ مچانا‘‘ جنگل میں ان کے گھر کے پاس ایک کنواں تھا جس میں بہت سا پانی تھا۔ دونوں بچوں کی ماؤں نے انہیں یہ ہدایت کررکھی تھی کہ کنویں کے قریب مت کھیلنا‘ گائے نے کہا تھا: ’’اگر تم کنویں کے قریب کھیلو گے تو اس کا پانی گندا ہوجائے گا اور ہم سے گندا پانی نہیں پیا جاتا‘‘ شیرنی نے کہا تھا اگر تم کنویں کے قریب کھیلو گے تو اس میں گرکر مرجاؤ گے۔ ہم تمہاری کچھ بھی مدد نہیں کرسکیں گے کیونکہ کنویں میں بہت سا پانی ہے۔‘‘
گائے کا بچھڑا اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتا اور کنویں کے قریب نہیں پھٹکتا تھا لیکن شیرنی کا بچہ بڑا نافرمان تھا۔ وہ کہتا: میری ماں مجھے کنویں کے قریب جانے سے منع کرتی ہے اس لیے میں وہاں ضرور جاؤں گا۔ اس مرتبہ بھی اس نے یہی کیا۔ گائے بچھڑے نے بہت کہا کہ کنویں کے قریب نہ کھیلو تمہیں معلوم ہے ہماری ماؤں نے منع کیا تھا‘ واپس آجاؤ۔ ’’مجھے کوئی پروا نہیں کہ میری یا تمہاری ماں نے کیا کہا تھا‘‘ یہ کہہ وہ کنویں کے چاروں طرف چکر کاٹنے لگا۔ گائے کا بچہ چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ واپس آجاؤ لیکن شیرنی کا بچہ اچھلتا کودتا رہا آخر کنویں میں گر پڑا اور کچھ دیر بعد مرگیا۔
بچھڑا سوچنے لگا: ’’جب شیرنی واپس آئے گی اور اسے یہ معلوم ہوگا کہ اس کا بچہ کنویں میں گرگیا ہے تو وہ یہی سمجھے گی کہ میں نے اسے دھکا دیا ہے۔ اگر میں کہوں گا کہ وہ خود شرارت کررہا تھا تب بھی وہ میرا ہی قصور بتائے گی۔ اب میں کیا کروں؟ وہ جلدی سے اپنی ماں کے پاس گیا اور اسے سب قصہ کہہ سنایا۔ گائے نےکہا: اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں میں جانتی ہوں وہ بڑا شریر تھا‘ لیکن اس کی ماں سنے گی تو خفا ہوگی۔ ہمیں اس سے پہلے ہی یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ آؤ، میری دم پکڑ لو اور جتنا تیز دوڑ سکتے ہو‘ دوڑو۔ بچے نے گائے کی دم منہ میں دبالی اور بھاگنا شروع کیا۔ بچے کی ٹانگیں کمزور تھیں اس لیے وہ جلد ہی تھک گیا اور اس نے اپنی ماں سے کچھ دیر آرام کرنے کی درخواست کی لیکن گائے نے کہا: نہیں ٹھہرو مت ورنہ شیرنی ہمیں پکڑ کر کھاجائے گی‘ چلو دوڑتے رہو۔ تھوڑی دور اور دوڑنے کے بعد بچھڑے میں ہمت نہ رہی اور وہ نیچے گرپڑا۔ اس کی ماں نے کہا: ’’ہمیں کسی جگہ پناہ لے لینی چاہیے۔ اٹھو! تلاش کرتے ہیں‘ شاید کوئی ہمدرد مل جائے۔‘‘
اتنے میں انہیں ایک زرافہ نظر آیا۔ زرافے نے کہا ’’کیوں گائے بہن! خیریت تو ہے‘ کیا معاملہ ہے۔ آپ اپنے ننھے بچے کو ساتھ لیے ادھر کہاں آنکلیں‘‘ گائے نے کہا: مہربانی کرکے ہماری مدد کرو اور ساتھ زرافے کو سارا قصہ سنادیا۔ زرافے نے کہانی سن کر جواب دیا اچھی بات ہے میں آپ کا خیال رکھوں گا۔ مجھے شیرنی کا کوئی ڈر نہیں‘ میرے پاس ٹھہرو‘ کھاؤ پیو‘ میں آپ کی حفاظت کروں گا۔ گائے کو کچھ اطمینان ہوا اور تھوڑا بہت کھاپی کر اپنے بچھڑے کو لے کر سوگئی۔ اسے سوئے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ زرافے نے گائے کو جگا کر کہا: ’’شیرنی آپہنچی ہے آپ جائیں‘‘ گائے جاگ کر کھڑی ہوئی اور کہا ’’کیا کہاتم نے‘‘ زرافے نے پھر: شیرنی آرہی ہے آپ فوراً چلی جائیں۔ گانے جواب دیا: لیکن میرا تو خیال تھا تم ہماری حفاظت کروگے اور ہم کچھ دن یہاں رہ سکیں گے۔ زرافے نے کہا: ارے نہیں! آپ یہاں نہیں ٹھہرسکتیں۔ میں شیرنی سے نہیں لڑنا چاہتا۔ گائے نے بچھڑے سے کہا ہمیں پھر بھاگنا پڑے گا‘ اب کوئی واقعی سچا دوست تلاش کریں گے۔ اب پھر دونوں جنگل کے اونچے نیچے درختوں کے بیچ میں دوڑنے لگے۔ بچہ تھکنے ہی والا تھا کہ انہیں ایک بھینس کھڑی نظر آئی۔ بھینس نے بھی وہی سوالات پوچھے جو زرافے نے پوچھے تھے اور اسی طرح اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا اور دعویٰ کیا وہ شیرنی کو ماربھگائے گی۔ بھینس کو اپنے سینگوں پر بڑا ناز تھا۔ گائے بے چاری نے تھوڑا بہت کھایا پیا اور بچے کو لے کر سوگئی‘ لیکن زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ شیرنی پھر وہاں آپہنچی۔ بھینس نے گھبرا کر گائے کو بیدار کیا اور زرافے کی طرح بزدلی دکھائی اور گائے اور اس کے بچے کو گھر سے بھگادیا۔ بے چاری گائے پھر کسی سچے دوست کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد اسے ایک ہاتھی ملا۔ ہاتھی نے بھی کہانی سن کر دعویٰ کیا کہ سب شیر اس سے کانپتے ہیں لہٰذ ا وہ گائے کو پناہ دے گا۔
گائے بڑی خوش ہوئی اور بچے کو لے سوگئی۔ شیرنی وہاں بھی آگئی اور ہاتھی اس سے گھبرا گیا اور گائے کو بھگا دیا۔ آخر دوڑتے دوڑتے جنگل بھی ختم ہوگیا اور گائے اور اس کا بچھڑا کھیتوں پر نکل آئے۔ اب انہیں شیرنی کا اور بھی زیادہ خوف تھا کہ وہ ضرور پکڑلے گی۔ اتنے میں انہیں سرخ رنگ کی ایک چھوٹی سی چڑیا نظر آئی۔ اُس نے کہانی سننے کے بعد کہا میں چھوٹی ضرور ہوں لیکن تمہاری سچی سہیلی ثابت ہونگی۔ میں ان کی طرح نہیں ہوں جو کام کچھ نہیں کرتے صرف شیخی مارتے ہیں۔ اب دیکھو میں کیا کرتی ہوں۔ مجھے صرف ایک پیالہ دودھ کی ضرورت ہے۔ گائے نے چڑیا کو پیالہ بھر دودھ دے دیا۔ چڑیا گئی اور کیلے کا پھول لے آئی‘ اس نے یہ پھول دودھ پر لٹکایا اور اس میں سے چند قطرے اس کے سرخ رس کے ٹپکا دیے۔ دودھ خون کی طرح سرخ ہوگیا۔ اب سب مل کر شیرنی کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ شیرنی جلد ہی آگئی۔ چڑیا اڑ کر اس کے سرپر جاپہنچی اور اس کی آنکھوں پر چونچیں مارنے لگی۔ شیرنی کو بڑا غصہ آیا وہ دھاڑنے لگی اور چڑیا سے کہاکیا تم مجھے اندھا کردو گی؟ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا مجھے تکلیف نہ دو۔ چڑیا ہنسی اور کہنے لگے۔ اگر تم مجھے دیکھ نہیں سکتی ہو تو اپنی آنکھوں سے خون کا گرنا محسوس تو کرسکتی ہو۔ یہ کہہ کر چڑیا نے سرخ دودھ شیرنی کے سر پر ڈال دیا۔ شیرنی نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو واقعی خون گررہا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر ڈر گئی۔ چڑیا نے کیلے کا سرخ پھول اٹھا کر شیرنی کے سامنے زمین پر پھینک دیا اور کہنے لگی: دیکھو شیرنی! میں نے تمہارا دل بھی نکال لیا ہے وہ سامنے زمین پر پڑا ہے۔ شیرنی نے سامنے نظرڈالی تو کوئی چیز پڑی دکھائی دی جسے وہ واقعی اپنا دل سمجھی پھرتو وہ ایک منٹ بھی وہاں نہیں ٹھہری‘ فوراً مڑی اور تیزی سے جنگل کی طرف بھاگی۔ اسی وقت سے اب تک گائے گاؤں میں رہتی ہے اور ننھی سرخ چڑیا اس کی بہترین سہیلی ہے وہ اکثر گائے کے گھر ہی میں رہتی ہے کبھی کبھار اسے وہاں کچھ کھانے کو بھی مل جاتا ہے کیونکہ اس نے کسی زمانے میں گائے کی مدد کی تھی۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 348 reviews.